واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

حضرت خواجہ قطب الدین مودوچشتی

رحمتہ اللہ علیہ

 

          آپ کی  ولادت با سعادت بمقام چست شریف مورخہ ۴۳۰ ہجری کو ہوئی۔حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمتہ اللہ علیہ   حضڑت خواجہ ابو یوسف ناصر الدین چشتی رحمت اللہ علیہ کے فرزند تھے اورحضرت خواجہ ابو یوسف ناصر الدین سیدابونصر محمد سمعان رحمت اللہ علیہ (   ۳۹۸ہجری) کے فرزند تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

خواجہمودودچشتی کاذکرخیر کسیتعارفکامحتاجنہیں،آپکےبارےمیںبےشمارمضامینتحریرکئےجاچکےہیں۔ خواجہابویوسفچشتیجب۴۵۹ہجری میں اس جہاں سے رخصت ہوئے توانکےبڑےبیٹےخواجہمودودچشتیانکےخلیفہاورجانشینمقررہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ۔ قرآن مجید ۷ سال کی عمر میں حفظ کیا۔ اپنی تعلیم ۱۶ سال کی عمر میں مکمل کی، آپ۲۹برس کیعمرمیںسجادہنشینہوۓ  اورخلقاللہ  کیہدایتمیںمشغولہوگئے، آپکےمریدوںکیتعدادبےشمارہے خلفاکیتعداددسہزاربتائیجاتیہے،  اورخلفاخاصکیتعدادایکہزاربتائیگئیہے،خواجہ قطب الدین مودود چشتی خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے بھی شیخ اشیوخ تھے -جوشخصدلیمرادلےکرآپکےمزار پرتینروزجا وۓاسکیمرادپوریہوجاتیہے، آپہمیشہفقراءاورمساکینکےساتھصحبتپسندرکھتےتھے،نیاکپڑاہرگزنہیں پہنتےتھے۔

جوشخصآپکیخدمتمیںحاضرہوتاآپاسکےدلکاحال  مفصلبیانفرما  دیتے،اورجسکیقبرسےآپگزرتے اسکاحالبیانفرمادیتے۔   خواجہ مودود رحمتہ اللہ علیہ  چشت کے تمام اکا بر اور مشاہخ وقت تابع تھے اور آپ کی تعظیم تکریم میں انتہا ئی کوشش کر تے تھے۔ آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد محترم حضرت خواجہ ناصر الدین ابو یوسف چشتی رحمتہ اللہ علیہ  سے پہنا تھا۔

 حضرت خواجہ قطب الدین مودودی چشتی رحمت ﷲ علیہ کے خلفاء کی تعداد دس ہزار بتائی جاتی ہے، اس سے آپ کے حلقہ رشد و ہد اہت کا پتہ چلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپکا سلسلہ دعوت اس قدر وسعت اختیار کر گیا، اسکے اثرات صرف ہرات تک محدود نہ رہے، بلکہ دور دور علاقوں مغرب میں خراسان، عراق، شام، اور حجاز تک اور جنوب میں سیستان ، بلوچستان، اور برصغیر پاک ہند و سندھ تک پہنچے، مغرب میں آپکے نظریات کی پرچار آپکے خلفاء نے کی، ان میں خواجہ شریف زند نی، خواجہ عثمان ہارونی، قابل ذکر ہیں۔

 خواجہ قطب الدین مودود چشتی رحمتہ ﷲ علیہ کی عمر ۲۹ برس کی تھی جب آپکے والد کا انتقال ہوا، آپ نے خرقہ ادارت اپنے والد سے حاصل کی اور اپنے والد کے سچے جانشین ثابت ہوئے۔ آپ نے کسی امیر یا بادشاہ کے دروازہ پر کبھی قدم نہیں رکھا، آپ ہر شخص کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، سلام کرنے میں ہمیشہ پہل کرتے تھے، سادہ زندگی بسر کرتے اور سادہ لباس پہنتے تھے۔

جب اللہ تعالٰی نے حضرت آدم کی اولاد کو دنیا میں پھیلایا تو انکی تربیت کی بھی اشد ضرورت پڑی، کیونکہ تربیت ہی انسان اور حیوان میں فرق پیدا کرتی ہے، چنانچہ اللہ تعالٰی نے اس تربیت کے لیے خود انہی میں سے خاص انسانوں کو منتخب فرمایا، اور ہدایات آسمانی کتابوں کی صورت میں اُتاری، ہدایت کے پہلے درجے میں پیغمبروں کو ذریعہ بنایا جن کے آخری پیغمبر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں ، دوسرے درجے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سلسلہ اہل بیت کے ذریعے امامین کو مقرر فرمایا امامین کی تعداد ہر فقہ اسلام کے لحاظ سے مختلف سمجھی جاتی ہے، امامین کے ساتھ تیسرا دور اولیا اور صوفیا کا شروع ہوتا ہے۔

حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی  رحمتہ اللہ علیہ  جب بلخ پہنچے تو  وہاں کے علما نے آپ کی بڑی مخالفت کی۔مسلہ سماع  پر مناظرہ کرنے کے لیے ایک عظیم اجتماع ہوا۔اس مجلس میں علمائے بلخ نے جتنے سوالات اٹھائے حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی  رحمتہ اللہ علیہ  نے ان کے جوابات دیے اور فرمایا ہم حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ  کی سنت پر قائم ہیں۔ وہ ہمارے پیر تھے اور سماع سناکرتے تھے۔ اس پر علما نے کہا کہ حضرت زبراہیم ادھم رحمتہ اللہ علیہ  پیرکامل تھے وہ ہوا میں اڑا کرتے تھے اس لئے ان کا سماع سننا جائز ہے مگر آپ رحمتہ اللہ علیہ  ایسا نہیں کرسکتے۔ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی  رحمتہ اللہ علیہ اسی وقت مجلس سے اٹھے اور تیز پرندے کی طرح ہوا میں اڑنے لگے اور علما کی نظروں سے غائب ہوگئے۔ کچھ وقت گزارنے کے بعد مجلس میں آکر یوں خاموشی سے بیٹھ گئے کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے آنے کا مجلس میں شور برپا ہوگیا۔ اس مجلس میں دوہزار لوگ موجود تھے وہ سب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے مرید ہوگئے مگر بعض ضدی علما اسرار کرتے رہے کہ یہ پرواز والا کام تو بعض جوگی بھی کرلیتے ہیں۔ اگر جامع مسجد کے حوض میں پڑا ہوا پتھر آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی گواہی دے تو پھر ہم آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو مان لینگے۔ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی  رحمتہ اللہ علیہ نے پتھر کی طرف اشارہ کیا تو وہ پتھر آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے پاس آکر رک گیا۔ پتھر سے آواز آئی اے خواجہ مودو آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی ولایت پر کوئی شک نہیں۔ بلخ کے علما نے جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی یہ کرامت دیکھی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  کے قدموں میں گرپڑے اور معافی مانگی۔

جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کا اس دنیا سے رخصتی کا وقت قریب آیا تو ایک بڑا عجیب واقع رونما ہوا۔ خزینتہ الاصفیا میں لکھا ہو ہے کہ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  پر نزاع کا وقت طاری ہوا تو آپ رحمتہ اللہ علیہ  بار بار دروازے کی طرف دیکھتے جیسے کسی کے آنے کا انتظار ہو۔ اسی اثنا میں ایک نورانی چہرے والا شخص آیا اس نے آپ رحمتہ اللہ علیہ  کو ایک ریشمی کپڑے کا ٹکڑا پیش کیا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا۔ حضرت خواجہ قطب الدین مودود چشتی  رحمتہ اللہ علیہ نے اس کپڑے کو ایک نظر دیکھا اور اپنی آنکھوں پر رکھا اور اس دارفانی سے رخصت ہوگئے۔

اسی طرح لکھا ہوا ہے کہ جب آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی نماز جنازہ ہوئی تو اس میں بیش شمار لوگ آئے جن میں رجال الغیب سے بھی لوگ تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی نماز جنازہ تین چار دفعہ پڑی گئی۔ جب نماز جنازہ ختم ہوئی تو جنازے کا تابوت خودبخود اٹھ گیا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی آرام گاہ کی طرف چلنے لگا۔ اس کرامت کو دیکھ کر دس ہزار غیر مسلم لوگ مشرف بااسلام ہوئے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ  اس دارفانی سے یکم رجب المرجب ۵۲۵ہجری میں رخصت ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ  کی آخری آرام گاہ چشت افغانستان میں ہے۔